Tuesday, February 15, 2011

دین میں بدعت اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم


الإبتداع في الدين والاحتفال بمولد خاتم النبيين
عبد العزيز بن سالم العمر
 ترجمة
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
    تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے رسول کودین حق اورہدایت کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کوتمام ادیان پرغالب کرے گرچہ کافراسے ناپسندکریں.اوردرودوسلام ہواللہ کے بندے ورسول ہمارے نبی محمد صلى اللہ علیہ وسلم پرجوشرک وگمراہی کومٹانے والے ،حق كوظاهرکرنے والے اوراسکی طرف دعوت دینے والےتھے اللہ کا درود وسلام نازل ہوان پراورانکے آل واصحاب پر أمابعد
سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اوربہترطریقہ نبی پاک صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اورسب سے بری چیزنئی چیزوں کا ایجاد کرنا ہے اورہرنئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی آگ میں لے جانے والی ہے.
 محترم قارئین!کون سی بدعت ہے جس سے شارع نے ڈرایا ہے اوراسے گمراہ کن قراردیا ہے.
بدعت کی لغوی تعریف:جوکسی سابقہ مثال کے بغیر ایجاد کی گئی ہو.
بدعت کی شرعی تعریف:دین میں ایجاد کردہ ایساطریقہ جوشریعت کے مشابہ ہواوریہ سنت کے باالمقابل اوراسکے ضد ہے.
میرے مسلم بھائی! بدعت کے سلسلہ میں آپ کی خدمت میں چند نصوص پیش ہیں:
1.  عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" تم میں سے جوبھی میرے بعد زندہ رہے گا توبہت زیادہ اختلافات دیکھے گالہذاتم میری اورميرے بعدہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کولازم پکڑنا اوراس کومضبوطی سےتھامے رہنا ،اورنئی چیزوں کے ایجادکرنے سے دوررہنا اسلئے کہ ہربدعت گمراہی ہے " (احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی حاکم اورابن حبان نے روایت کی ہے اورالبانی رحمہ اللہ نے کتاب السنه کی تخریج میں اسے صحیح قراردیا ہے )
2.  جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ جسکو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور بےشک بہترین کلام اللہ تعالى کی کتاب ہے اورسب سے عمدہ طریقہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اورسب سے بدترین کام وہ ہیں جن کودین میں ایجاد کیا جائے اوردین میں ہرنوایجادچیزبدعت ہے"(اسے مسلم اوربیہقی نے روایت کیا ہے اورمسلم اورنسائی ميں صحیح سند کے ساتھ ہے "ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے" ).
3.  اورعائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"جس نے میرے دین میں کوئی ایسی چیزایجاد کی جواسمیں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے"(متفق علیہ) اورمسلم کی ایک روایت میں "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جوہمارے حکم کے خلاف ہے تووہ مردود ہے".
  (ابن حجررحمہ اللہ "ہربدعت گمراہی" کے تحت فرماتے ہیں:"یہ جملہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ ہروہ بدعت جوگمراہ ہے شریعت میں سے نہیں ہوسکتی اسلئے کہ شریعت سب کی سب ہدایت ہے.اوررہی بات حدیث عائشہ تویہ جوامع الکلم میں سے ہے اوریہ ظاہری اعمال کا میزان ہے.اوربدعتی کا عمل مردود ہے اوراہل علم کا اسکے بارے میں دوقول ہیں اول:اسکا عمل خود اسی پرلوٹادیا جاتا ہے .دوم:بدعتی نے اللہ کے حکم کورد کردیا کیونکہ اسنے اپنے آپ کواحکم الحاکمین کے مشابہ قراردیا اوردین میں ایسی چیز کومشروع قراردیا جسکی اللہ نے اجازت نہیں فرمائی ہے "ا.ھ.
   بدعت کے بارے میں صحابہ کرام کے بعض اقوال:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :"پیروی کرو اوربدعت نہ ایجاد کروکیونکہ تم (سنت سے)کافی کردئے گئے ہو"(طبرانی اوردارمی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
 عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"ہربدعت گمراہی ہے گرچہ لوگ اسے اچھا سمجھیں"(دارمی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے )
 اورعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد میں بیٹھی ہوئی قوم کی تردید کی جنکے ہاتھوں میں کنکریاں تھیں اوران میں سے ایک آدمی یہ کہ رہا تھا :کہ سوباراللہ اکبرکہو,تووہ اللہ اکبرکہتے ,پھرکہتا کہ :سوبارلا الہ الا اللہ کہو تووہ سوبارلا الہ الا اللہ کہتے ,سوبارسبحان اللہ کہو تووہ سوبارسبحان اللہ کہتے  آپ نے فرمایا:"قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تم لوگ ایسے طریقے پرہوجومحمد صلى اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے زیادہ بہترہے یا گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو-توا ن لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اے ابوعبد الرحمن ہمارامقصد صرف خیرکا ہی ہے انہوں نے کہا کہ :کتنے خیرکے متلاشی اسے ہرگزنہیں پاسکتے "-(دارمی اورابونعیم نے اسکوصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ).
  یہ تھا امت کے سلف کا بدعت کی خطرناکی کے بارے میں سمجھ اسلئے امام دارالہجرۃ مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :جس نے اسلام میں کوئی ایسی بدعت ایجاد کی  جسکواچھا سمجھتا ہے تواسنے یہ گمان کیا کہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی اسلئے کہ اللہ کہتا ہے کہ"آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کومکمل کردیا اورتم پراپنی نعمت تمام کردی اورتمہارے لئے اسلام کوبطوردین پسند کرلیا" [المائدة:3] توجوچیزاسوقت دین نہ تھی آج بھی دین میں سے  نہ ہوگی" ا.ھ.
   امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے:"جس نے (دین میں)کسی چیز کواچھا سمجھا تواس نے شریعت سازی کی"
 اورامام احمد رحمہ اللہ کا فرمان ہے:"سنت کا اصول ہمارے نزدیک اس چیزکولازم پکڑنا ہے جس پررسول صلى اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھےاورانکی پیروی کرنا ہے اوربدعت سے کنارہ کشی اختیا رکرنا ہے اورہربدعت گمراہی ہے"
-  بدعت کی خطرناکی:
1 - اسکا عمل اسی پرلوٹا دیا جاتا ہے
2 -   جب تک وہ بدعت پرمصررہتا ہے اسکی توبہ قبول نہیں ہوتی
3 -   نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے حوض پرآنے سےروک دیا جائیگا.
4 -   قیامت تک اسکی بدعت پرعمل کرنے والوں کے گنا ہوں کا اس پرگنا ہ ہوگا.
5 - بدعتی شخص ملعون ہوتا ہے.
6 -   بدعتی شخص اللہ سے صرف دوری حاصل کرتا ہے.
7 -  بدعت سنت کومردہ کردیتی ہے.
8 -   بدعت ہلاکت کا سبب ہے.
9 -   بدعت کفرکی ڈاک ہے.
10 -   بدعت اختلاف کے ایسے دروازے کوکھول دیتی ہے جوبغیرکسی دلیل کے صرف ہوائے نفس پرقائم ہوتی ہے.
11 -   بدعت کو کمترسمجھنا فسوق ونافرمانی تک پہنچادیتی ہے.
-  بدعت کواچھا قراردینے والوں کے شبہات اورانکا رد:
1-  (جسکومسلمان اچھا سمجھیں تووہ اللہ کے نزدیک اچھا ہے اورجسکومسلمان براسمجھیں تووہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے.)
 پہلی بات:یہ حدیث مرفوعا ثابت نہیں ہے بلکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام ہے ,اورصحابی کے قول کورسول صلى اللہ علیہ وسلم کے قول سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا .اوربالفرض اسکوصحیح بھی مان لیا جائے تواس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ جسکوتمام مسلمان اچھا سمجھیں تویہ اجماع ہوگی اوراجماع حجت ہے اوراسمیں ان لوگوں کیلئے کوئی حجت نہیں ہے جوبدعت کواچھا گردانتے ہیں ,اورمعتبراصولیین کے اجماع سے مراد : اہل علم کا کسی زمانہ میں اجماع کرنا ہے.
2-    عمررضی اللہ عنہ کا قول "کیا ہی اچھی بدعت ہے" یہ تراویح کی نمازکے بارے میں تھی اوریہ سنت ہے لیکن عمررضی اللہ عنہ نے اسے جماعت کے ساتھ قائم کی جبکہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک امام کے پیچھے قائم کرنے سے لوگوں پراسکے فرض ہونے کے اندیشہ سے چھوڑدیا تھا تویہ عمررضی اللہ عنہ نے لغوی بدعت کے طورپرکہا تھا.کیونکہ یہ سابقہ مثال پرنہ تھی چنانچہ ابوبکررضی اللہ عنہ کے دورمیں نہ تھی .یا یہ کہ جب عمررضی اللہ عنہ نے مسجد روشن کی اورلوگ بھی اکھٹا ہوگئے توعمررضی اللہ عنہ نے گمان کیا کہ یہ انکا عمل نیا ہے توفرمایا "کیا ہی اچھی بدعت ہے" اوریہ بھی کہ عمررضی اللہ عنہ خلفاء راشدین میں سے ہیں جنکی قول سے دلیل پکڑی جاسکتی ہے جب وہ نصوص کے مخالف نہ ہو,)
3-  جس نے اسلام میں کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا تواسکو اسکا ثواب ملے گا اوران لوگوں کے عمل کابھی ثواب ملتا رہے  گا جواسکے بعد اسے کریں گے بغیراسکے ثواب میں کسی کمی کے.
  اس حدیث کا ایک واقعہ ہے وہ یہ کہ   اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس مضرقوم سے ننگے پاؤں اوربدن،اون کی دھاری دارچادریں پہنے ہوئے کچھ لوگ حاضرہوئے جب رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا توآپ کا چھرا ان پرفقردیکھنے کی وجہ سے بدل گیا آپ نے بلال کوحکم دیا  انھوں نے اذان دی پھر(جب لوگ نمازکیلئے جمع ہوگئے تو)تکبیرکہی اورآپ نے نمازپڑھائی پھرلوگوں سے خطاب فرمایااورانھیں صدقہ پرابھارا توایک صحابی بھاری بھرکم گھٹرلے کرآئے اورآپ صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھدیا پھرلوگوں نے لانا شروع کردیا یہاں تک کہ غلوں اور کپڑوں کے  دوڈھیرجمع ہوگئے توآپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جسنے کوئی اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا ...الخ) پس سنت یہ کہ اسنے انفاق کی سنت کوزندہ کیا سخاوت کے ذریعہ نہ کہ اسنے صدقہ کوجاری کیا.  
4-عرف عام: جس پراکثرلوگ ہوں بدعت میں سے جسکولوگ جانتے ہوں اوراسکوپکڑے ہوئے ہوں کیونکہ یہ انکے عرف میں سے ہے جس پراپنے آباءکو پایا ہے.اوریہی چیزمشرکوں کے حق کوناماننے کے سبب میں سے تھی "کہ بے شک ہم نے اپنے باب داداؤں کوایک طریقہ پرپایا ہے اورہم انہیں کے نقش قدم پرچلنے والے ہیں"[الزخرف:23]
 اورجماعت اکثریت کا نام نہیں ہے بلکہ جماعت وہ ہے جنکی سنت موافقت کرے گرچہ وہ قلیل تعدادمیں ہوں.
نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"بے شک اسلام غربت کے عالم میں شروع ہواتھا اورعنقریب اجنبیت کی طرف پلٹ جائے گا توخوشخبری ہوغرباء کیلئے"پوچھا گیا:  غرباء ہیں کون ہیں  اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم!؟ فرمایا:"جولوگوں کے فساد کے وقت انکی اصلاح کرتے ہیں"(حدیث صحیح  ہے)
 اورعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:"کہ جماعت وہ ہے جوحق کی موافقت کرے گرچہ تم تنہا ہی کیوں نہ ہو"
    بدعت کے پھیلنے کے اسباب:
1.  سنت مطہرہ اورحدیث کے مصطلحات سے جہالت برتنا اس طورپرکہ صحیح اورضعیف کےدرمیان تمییزنہ کرسکنا.تواسطرح سے ضعیف وموضوع احادیثیں کثرت سے ہوتی ہیں جیسا کہ "محمدی نورکی بدعت" جوایک موضوع حدیث پرقائم ہے(کہ اللہ نے سب سے پہلے اپنے نبی کا نورپیدا کیا اے جابر!)اور"محمد صلى اللہ علیہ وسلم کیوجہ سے مخلوقات کی پیدائش کی بدعت" جوایک جھوٹی حدیث پرقائم ہے (اگرآپ نہ ہوتے توآسمان نہ پیدا ہوتے) اورگڑھنے والے پریہ بات پوشیدہ رہ گئی کہ اگر مخلوق نہ ہوتی تومحمد صلى اللہ علیہ وسلم نہ بھیجے جاتے.اللہ کا ارشاد ہے "اے (نبی صلى اللہ علیہ وسلم)ہم نے توآپ کودینا والوں کیلئے رحمت بنا کربھیجاہے) [الأنبياء:107].
2. لوگوں کا جاہلوں کواپنا سرداربنا لینا جوتعلیم وفتوی دیتے پھریں اوراللہ کے دین میں بغیرعلم کے کلام کرنا شروع کریں.
3. بعض ایسے عادات اورخرافات جن پرکوئی شرعی دلیل دلالت نہیں کرتی اورنہ ہی عقل اسے رواسمجھتی جیسے میلاد وماتم وغیرہ کی بدعات.
4. ائمہ مجتہدین کی عصمت کا اعتقاد رکھنا اورمشائخ کوانیباء کی طرح تقدس کا درجہ دینا .
5. متشابہ آیات واحادیث کی پیروی کرنا اورمحکم کیطرف نہ لوٹانا)
- میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم
میلاد کی ابتداء:سب سے پہلے اسے قاہرہ کے اندرچوتھی صدی ہجری میں فاطمی خلفاء نے ایجاد کی ,وہ عبیدیین تھے اورانکی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کوئی رشتہ نہ تھی.وہ زنادقہ اوربے دین تھے اپنے آپ کوروافض ظاہرکرتے جبکہ باطن میں خالص کفرکوپوشیدہ رکھتے.انھوں نے چھ میلادیں ایجاد کیں:میلادالنبی صلى اللہ علیہ وسلم .میلاد امام علی رضی اللہ عنہ,میلاد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  ،میلاد حسن وحسین رضی اللہ عنہما.اورمیلاد بادشاہ وقت کا.پھراسے افضل  بن امیرالجیوش نے باطل قراردیدیا پھر اسےفاطمی خلیفہ آمربأحکام اللہ کے ہاتھوں پانسوچوبیس ہجری میں دوبارہ منایا جانے لگا جبکہ لوگ اسے بھول چکے تھے.
   اورسب سے پہلے میلاد النبی کواربل کے بادشاہ ملک مظفرکوکپوری نے ساتویں صدی ہجری میں ایجاد کیا اوراسی وقت سے ابتک یہ عمل جاری ہے.جبکہ یہ میلادیں پہلے تین افضل ادوار میں سلف کے عمل میں سے  نہ تھیں اورنہ ہی ائمہ اربعہ کے طریقےمیں سے بلکہ اسکوقرون مفضلہ کے بعد زنادقہ وجہلاء نے ایجاد کیا تھا.تویہ اللہ کے دین میں بدعت ہے .اورآپ کسی مشرک کونہیں پائیں گے مگروہ اللہ کی نقص کرنے والا ہوگا اورکسی بدعتی کونہیں پائیں گے مگروہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کرنے والا ہوگا.
(شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ :"اورجملہ منکربدعات میں سے جسکولوگوں نے ایجاد کرلیا ہے ماہ ربیع الاول میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا جشن منانے کی بدعت ہے اوروہ اس جشن میں مختلف قسم پرہیں:
كچھ لوگ تو اسے صرف اجتماع تك محدود ركھتے ہيں ( يعنى وہ اس دن جمع ہو كر ) نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس ميں اسى مناسبت سے تقارير ہوتى اور قصيدے پڑھے جاتے ہيں.
اور كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو كھانے تيار كرتے اور مٹھائى وغيرہ تقسيم كرتے ہيں.
اور ان ميں سے كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ جشن مساجد ميں مناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اپنے گھروں ميں مناتے ہيں.
اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہيں.
جشن ميلاد النبى كى جتنى بھى انواع و اقسام ہيں، اور اسے منانے والوں كے مقاصدہ چاہيں جتنے بھى مختلف ہوں، بلاشك و شبہ يہ سب كچھ حرام اور بدعت اور دين اسلام ميں ايك نئى ايجاد ہے، جو فاطمى شيعوں نے دين اسلام اور مسلمانوں كے فساد كے ليے پہلے تينوں افضل ادوار گزر جانے كے بعد ايجاد كى.
اور مسلمان شخص كو تو چاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كا احياء كرے اور جتنى بھى بدعات ہيں انہيں ختم كرے، اور كسى بھى كام كو اس وقت تك سرانجام نہ دے جب تك اسے اس كے متعلق اللہ تعالى كا حكم معلوم نہ ہو.ا.ھ.
جشن ميلاد منانے والوں كے شبہات كا مناقشہ
اس بدعت كے منانے كودرست سمجھنے والوں كا ايك شبہ ہے جو مكڑى كے جال سے بھى زیادہ كمزور ہے، ذيل ميں اس شبہ كا ازالہ كيا جاتا ہے:
1 -  ان بدعتيوں كا دعوى ہے كہ: يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم و تكريم كے ليے منايا جاتا ہے:
اس شبہ كا جواب:
اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہوئے ان كے فرامین پر عمل پيرا ہوا جائے، اور جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كيا جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كى جائے.
بدعات و خرافات پر عمل كرنا، اور معاصى و گناہ كے كام كرنے ميں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم نہيں، اور جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بھى اسى مذموم قبيل سے ہے كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سے زيادہ تعظيم اور عزت كرنے والے صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين تھے جيسا كہ عروۃ بن مسعود نے قريش كو كہا تھا:
( ميرى قوم كے لوگو! اللہ تعالى كى قسم ميں بادشاہوں كے پاس بھى گيا ہوں اور قيصر و كسرى اور نجاشى سے بھى ملا ہوں، اللہ كى قسم ميں نے كسى بھى بادشاہ كے ساتھيوں كواس كى اتنى عزت كرتے ہوئے نہيں ديكھا جتنى عزت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى كرتے ہيں، اللہ كى قسم! اگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم تھوكتے ہيں، تو وہ تھوك بھى صحابہ ميں سے كسى ايك كے ہاتھ پر گرتى ہے، اور وہ تھوك اپنے چہرے اور جسم پر مل ليتا ہے، اور جب وہ انہيں كسى كام كا حكم ديتے ہيں تو ان كے حكم پر فورا عمل كرتے ہيں، اور جب محمد صلى اللہ عليہ وسلم وضوء كرتے ہيں تو اس كے ساتھى وضوء كے پانى پر ايك دوسرے سے جھگڑپڑتے ہيں، اور جب اس كے سامنے بات كرتے ہيں تو اپنى آواز پست ركھتے ہيں، اور اس كى تعظيم كرتے ہوئے اسے تيز نظروں سے ديكھتے تك بھى نہيں"
صحيح بخارى شريف ( 3 / 178 ) حديث نمبر ( 27 31 ) اور ( 2732 )، اور فتح البارى ( 5 / 388 ).
اس تعظيم كے باوجود انہوں نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم پيدائش كو جشن اور عيد ميلاد كا دن نہيں بنايا، اگر ايسا كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كبھى بھى اس كو ترك نہ كرتے.
2 -  يہ دليل دينا كہ بہت سے ملكوں كے لوگ يہ جشن مناتے ہيں:
اس كے جواب ميں ہم صرف اتنا كہيں گے كہ: حجت اور دليل تو وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو عمومى طور پر بدعات كى ايجاد اور اس پر عمل كرنے كى ممانعت ثابت ہے،  اور يہ جشن بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.
جب لوگوں كا عمل كتاب و سنت كى دليل كے مخالف ہو تو وہ عمل حجت اور دليل نہيں بن سكتا چاہے اس پر عمل كرنے والوں كى تعداد كتنى بھى زيادہ  كيوں نہ ہو:
فرمان بارى تعالى ہے: ¼ وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ»  الأنعام:118]
"اگر آپ زمين ميں اكثر لوگوں كى اطاعت كرنے لگ جائيں تو وہ آپ كو اللہ تعالى كى راہ سے گمراہ كر ديں گے"
اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ الحمد للہ ہر دور ميں بدعت كو ختم كرنے اور اسے مٹانے اور اس كے باطل كو بيان كرنے والے لوگ موجود رہے ہيں، لہذا حق واضح ہو جانے كے بعد كچھ لوگوں كا اس بدعت پر عمل كرتے رہنا كوئى حجت اور دليل نہيں بن جاتى.
اس جشن ميلاد كا انكار كرنے والوں ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نے اپنى معروف كتاب" اقتضاء الصراط المستقيم" ميں اور امام شاطبى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب" الاعتصام" ميں اور ابن الحاج نے " المدخل" ميں اور شيخ تاج الدين على بن عمر اللخمى نے تو اس كے متعلق ايك مستقل كتاب تاليف كى ہے، اور شيخ محمد بشير الشہسوانى ھندى نے اپنى كتاب " صيانة الانسان عن وسوسة الشيخ دحلان" ميں اور سيد محمد رشيد رضا نے بھى ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور شيخ محمد بن ابراہيم آل الشيخ نے بھى اس موضوع كے متعلق ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور جناب فضيلة الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى اور ان كے علاوہ كئى ايك نے بھى اس بدعت كے بارہ ميں بہت كچھ لكھا اور اس كا بطلان كيا ہے، اور آج تك اس كے متعلق لكھا جا رہا ہے، بلكہ ہر برس اس بدعت منانے كے ايام ميں اخبارات اور ميگزينوں اور رسلائل و مجلات ميں كئى كئى صفحات لكھے جاتے ہيں.
3 -  جشن ميلاد منانے ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد كا احياء ہوتا ہے.
اس كے جواب ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تو ہر مسلمان شخص كے ساتھ تجديد ہوتى رہتى ہے اور مسلمان شخص تو اس سے ہر وقت مرتبط رہتا ہے، جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام اذان ميں آتا ہے يا پھر اقامت ميں يا تقارير اور خطبوں ميں، اور وضوء كرنے اور نماز كى ادائيگى كے بعد جب كلمہ پڑھا جاتا ہے، اور نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے وقت بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ہوتى ہے.
اور جب بھى مسلمان شخص كوئى صالح اور واجب و فرض يا پھر مستحب عمل كرتا ہے، جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے، تو اس عمل سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ ہوتى ہے، اور عمل كرنے والے كى طرح اس كا اجر بھى ان تك پہنچتا ہے...
تو اس طرح مسلمان شخص تو ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ كرتا رہتا ہے، اور پورى عمر ميں دن اور رات كو اس سے مربوط ركھتا ہے جو اللہ تعالى نے مشروع كيا ہے، نہ كہ صرف جشن ميلاد منانے كے ايام ميں ہى ، اور پھر جبكہ يہ جشن ميلاد يا جشن آمد رسول منانا بدعت اور ناجائز ہے تو پھر يہ چيز تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہميں دور كرتى ہے نہ كہ نزديك اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اس سے برى ہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس بدعتى جشن كى كوئى ضرورت نہيں وہ اس سے بے پرواہ ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے ان كى تعظيم كے ليے وہ كام مشروع كيے ہيں جن ميں ان كى عزت و توقير ہوتى ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے: ¼وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ» [الشرح:4]
"اور ہم نے آپ كا ذكر بلند كر ديا"
تو جب بھى اذان ہو يا اقامت يا خطبہ اس ميں جب اللہ تعالى كا ذكر ہوتا ہے تو اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ذكر لازمى ہوتا ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت و تعظيم اور ان كى عزت و تكريم اور توقير كى تجديد كے ليے اور ان كى  اتباع و پيروى كرنے پر ابھارنے كے ليے كافى ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد فرقان حميد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كو احسان قرار نہيں ديا بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت كو احسان اور انعام قرار ديا ہے.
ارشاد بارى تعالى ہے:¼لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ » [ آل عمران:164]
"يقينا اللہ تعالى نے مومنوں پر احسان اور انعام كيا جب ان ميں سے ہى ايك رسول ان ميں مبعوث كيا"
اور ايك مقام پر اس طرح ارشاد فرمايا:¼ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ »[ الجمعة:2]
"اللہ وہى ہے جس نے اميوں ميں ان ميں سے ہى ايك رسول مبعوث كيا"  
4 -  اور بعض اوقات وہ يہ بھى كہتے ہيں:
ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانے كى ايجاد تو ايك عادل اور عالم بادشاہ نے كى تھى اور اس كا مقصد اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا تھا!
اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:
بدعت قابل قبول نہيں چاہے وہ كسى سے بھى سرزد ہو، اور اس كا مقصد كتنا بھى اچھا اور بہتر ہى كيوں نہ ہو، اچھے اور بہتر مقصد سے كوئى برائى كرنا جائز نہيں ہو جاتى، اور كسى كا عالم اور عادل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ معصوم ہے.
5 -  ان كا يہ كہنا كہ: جشن ميلاد النبى بدعت حسنہ ميں شمار ہوتى ہے، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وجود پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كى خبر ديتى ہے.
اس كا جواب يہ ہے كہ:
بدعت ميں كوئى چيز حسن نہيں ہے بلكہ وہ سب بدعت ہى شمار ہوتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ديكھيں فتح البارى ( 5 / 355 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" يقينا ہر بدعت گمراہى ہے"
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 4 / 126 ) اور امام ترمذى نے جامع ترمذى حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب بدعتوں پر گمراہى كا حكم صادر كر ديا ہے اور يہ كہتا ہے كہ سارى بدعتيں گمراہى نہيں بلكہ كچھ بدعتيں حسنہ بھى ہيں.
حافظ ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى شرح الاربعين ميں كہتے ہيں:
( رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " ہر بدعت گمراہى ہے" يہ جوامع الكلم ميں سے ہے، اس سے كوئى چيز خارج نہيں، اور يہ دين كے اصولوں ميں سے ايك عظيم اصول ہے، اور يہ بالكل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اسى قول كى طرح  ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسا كام ايجاد كر ليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ عمل مردود ہے"
اسے بخارى نے ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ميں روايت كيا ہے، ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 355 ).
لھذا جس نے بھى كوئى ايجاد كركے اسے دين كى جانب منسوب كر ديا، اور دين اسلام ميں اس كى كوئى دليل نہيں جس كى طرف رجوع كيا جا سكے تو وہ گمراہى اور ضلالت ہے، اور دين اس سے برى ہے دين كے ساتھ اس كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں، چاہے وہ اعتقادى مسائل ميں ہو يا پھر اعمال ميں يا ظاہرى اور باطنى اقوال ميں ہو ) ا.ھ.
ديكھيں: جامع العلوم والحكم صفحہ نمبر ( 233 ).
اور ان لوگوں كے پاس بدعت حسنہ كى اور كوئى دليل نہيں سوائے عمر رضى  اللہ تعالى عنہ كا نماز تراويح كے متعلق قول ہى ہے، جس ميں انہوں نے كہا تھا:
( نعمت البدعة ھذہ ) يہ طريقہ کیا ہی اچھا ہے. اسے بخارى نے تعليقا بيان كيا ہے، ديكھيں: صحيح بخارى شريف ( 2 / 252 ) حديث نمبر ( 2010 ) ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 294 ).
جشن ميلاد منانے والوں كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
كچھ ايسى نئى اشياء ايجاد كى گئى جن كا سلف نے انكار نہيں كيا تھا: مثلا قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنا، اور حديث شريف كى تحرير و تدوين.
اس كا جواب يہ ہے كہ:
ان امور كى شريعت مطہرہ ميں اصل ملتى ہے، لہذا يہ كوئى بدعت نہيں بنتے.
اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول " يہ طريقہ کیا ہی اچھا ہے" ان كى اس سے مراد لغوى بدعت تھى نہ كہ شرعى، لہذا جس كى شريعت ميں اصل ملتى ہو تو اس كى طرف رجوع كيا جائے گا.
جب كہا جائے كہ: يہ بدعت ہے تو يہ لغت كے اعتبار سے بدعت ہو گى نہ كہ شريعت كے اعتبار سے، كيونكہ شريعت ميں بدعت اسے كہا جاتا ہے جس كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل نہ ملتى ہو جس كى طرف رجوع كيا جا سكے.
اور قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنے كى شريعت ميں دليل ملتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد لكھنے كا حكم ديا كرتے تھے، ليكن قرآن جدا جدا اور متفرق طور پر لكھا ہوا تھا، تو صحابہ كرام نے اس كى حفاظت كے ليے ايك كتاب ميں جمع كر ديا.
اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو چند راتيں تراويح كى نماز پڑھائى تھى، اور پھر اس ڈر اور خدشہ سے چھوڑ دى كے كہيں ان پر فرض نہ كر دى جائے، اور صحابہ كرام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں عليحدہ عليحدہ اور متفرق طور پر ادا كرتے رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد بھى اسى طرح ادا كرتے رہے، يہاں تك كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام كے پيچھے جمع كر ديا، جس طرح وہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے تھے، اور يہ كوئى دين ميں بدعت نہيں ہے.
اور حديث لكھنے كى بھى شريعت ميں دليل اور اصل ملتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ احاديث بعض صحابہ كرام كو ان كے مطالبہ پر لكھنے كا حكم ديا تھا.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں احاديث عمومى طور پر اس خدشہ كے پيش نظر ممنوع تھيں كہ كہيں قرآن مجيد ميں وہ كچھ نہ مل جائے جو قرآن مجيد كا حصہ نہيں، لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ ممانعت جاتى رہى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے قبل قرآن مجيد مكمل ہو گيا  تھا، اور اسے احاطہ تحرير اور ضبط ميں لايا جا چكا تھا.
تو اس كے بعد مسلمانوں نے سنت كو ضائع ہونے سے بچانے كے ليے احاديث كى تدوين كى اور اسے لكھا، اللہ تعالى انہيں اسلام اور مسلمانوں كى طرف سے جزائے خير عطا فرمائے كہ انہوں نے اپنے رب كى كتاب اور اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كو ضائع ہونے اور كھيلنے والوں كے كھيل اور عبث كام سے محفوظ كيا.
اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ:
تمہارے خيال اور گمان كے مطابق اس شكريہ كى ادائيگى ميں تاخير كيوں كى گئى، اور اس سے پہلے جو افضل ادوار كہلاتے ہيں، يعنى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور تبع تابعين كے دور ميں كيوں نہ كيا گيا، حالانكہ يہ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت زيادہ اور شديد محبت ركھتے تھے، اور خير و بھلائى كے كاموں اور شكر ادا كرنے ميں ان كى حرص زيادہ تھى، تو كيا جشن ميلاد كى بدعت ايجاد كرنے والے ان سے بھى زيادہ ہدايت يافتہ اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے والے تھے؟ حاشا و كلا ايسا نہيں ہو سكتا.
6 -  اور بعض اوقات وہ يہ كہتے ہيں كہ : جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ظاہر كرتا ہے، اور يہ اس محبت كے مظاہر ميں سے ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا اظہار كرنا مشروع اور جائز ہے !
اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:
بلاشك و شبہ ہر مسلمان شخص پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت واجب ہے، اور يہ محبت اپنى جان، مال اور اولاد اور والد اور سب لوگوں سے زيادہ ہونى چاہيے-  ميرے ماں باپ نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر قربان ہوں -  ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ ہم ايسى بدعات ايجاد كر ليں  جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مشروع بھى نہ كى ہوں.
بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو يہ تقاضا كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے اور ان كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كے مظاہر ميں سے سب عظيم ہے، كسى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:
اگر تيرى محبت سچى ہوتى تو اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا
 كيونكہ محبت كرنے والا اپنے محبوب كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا ہے.
لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا تقاضا ہے كہ ان كى سنت كا احياء كيا جائے، اور سنت رسول كو مضبوطى سے تھام كر اس پر عمل پيرا ہوا جائے، اور افعال و اقوال ميں سے جو كچھ بھى سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كا مخالف ہو اس سے اجتناب كرتے ہوئے اس سے بچا جائے.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جو كام بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے خلاف ہے وہ قابل مذمت بدعت اور ظاہرى معصيت و گناہ كا كام ہے، اور جشن آمد رسول يا جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم وغيرہ بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.
چاہے نيت كتنى بھى اچھى ہو اس سے دين اسلام ميں بدعات كى ايجاد جائز نہيں ہو جاتى، كيونكہ دين اسلام دو اصولوں پر مبنى ہے اور اس كى اساس دو چيزوں پر قائم ہے: اور وہ اصول اخلاص اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ہے.
فرمان بارى تعالى ہے: ¼ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ»[ البقرة:112]
"سنو! جو بھى اپنے آپ كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سامنے جھكا دے بلا شبہ اسے اس كا رب پورا پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو كوئى خوف ہو گا، اور نہ ہى غم اور اداسى"
تو اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا اللہ تعالى كے ليے اخلاص ہے، اور احسان نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور سنت پر عمل كرنے كا نام ہے. [مجلة البيان].)  (قوسين كے مابین کاترجمہ چونکہ اسلام سوال وجواب ویب سائٹ پرموجود تھا اسلئے اسکامراجعہ کرکے اسی پراکتفاکیا گیا ہے.)

- عید میلاد النبی کے باطل ہونے کے کئی اسباب ہیں:
1 -   نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تواہل مدینہ کے پاس کئی عیدیں تھیں آپ نے انھیں باطل قراردیا اورفرمایا:"ہم مسلمانون کی عید عید الفطراورعید الأضحى ہے"
2 - نصوص بدعت سے روکتی ہیں اوراسے گمراہ قراردیتی ہیں "ہربدعت گمراہی ہے".
3 -   اسی لئے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اہل جاہلیت کی عیدوں کوباطل قراردیا.
4 -  یہ (میلادیں)اسلام کے دشمن روافض کی ایجاد کردہ ہیں اوریہی مبتدعہ ہیں اورقبوں اورمسجدوں کوقبروں پربنانے والے ہیں.
5 -   سلف صالحین میں سے کسی نے اس بدعت کونہیں منایا باوجودیکہ وہ ایمان اورنصوص کے فہم کے اعتبارسے سب سے زیادہ کامل تھے .اورجس چیزکے ذریعہ بھی تقرب حاصل کی جائے (یاجس چیزکوبھی دین سمجھی جائے)جوسلف کے علم میں نہ ہوتووہ چیز دین میں سے نہیں ہے بلکہ وہ بدعت ہے.
-   میلادوں کا اہتمام کرنے والے:  
1 -   ایک گروہ وہ ہے جنکا مقصد صرف بدعت کوترویج دینا اوراسکے لئے اپنے آپ کوفناکردینا ہےاوریہ نیک اورعلماء میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ سنت میں کوتاہی سے مشہورہیں اورجماعات واجتماعات اورطاعات میں پیچھے رہنے والے ہیں اوربدعت کے وقت نشیط رہنے والے ہیں جبکہ اکثران میں سے جانتے ہیں کہ وہ بدعت پرہیں لیکن اس پرمصروبضد ہیں.
2 -  عوام جہلاء جواس بدعت کوجائزعبادت سمجھتے ہیں اوران لوگوں کی پیروی کرتے ہیں جوانھیں جہنم میں دھکیلنے والے ہیں.
3 - شہوت پرست لوگ جومیلاد میں صرف کھانے پینے اور عورتوں سے اختلاط وغیرہ کرکے لطف اندوزہوتے ہیں.
(شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ نےفرماتے ہیں کہ:
جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم ہو يا جشن آمد رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كى سارى اقسام و انواع اور اشكال و صورتيں بدعت منكرہ ہيں مسلمانوں پر  واجب ہے كہ وہ اس بدعت سے بھى باز رہيں اور اس كے علاوہ دوسرى بدعات سے بھى اجتناب كريں، اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا احياء كريں اور سنت كى پيروى كرتے رہيں، اور اس بدعت كى ترويج اور اس كا دفاع كرنے والوں سے دھوكہ نہ كھائيں، كيونكہ اس قسم كے لوگ سنت كی احياء كے بجائے بدعات كی احياء كا زيادہ اہتمام كرتے ہيں، بلكہ اس طرح كے لوگ تو ہو سكتا ہے سنت كا بالكل اہتمام كرتے ہى نہيں.
لہذا جس شخص كى حالت يہ ہو جائے تو اس كى تقليد اور اقتدا كرنى اور بات ماننى جائز نہيں ہے، اگرچہ اس طرح كے لوگوں كى كثرت ہى كيوں نہ ہو، بلكہ بات تو اس كى تسليم  كی جائے گى اور اقتدا اس كى كرنى چاہيے جو سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرتا ہو اور سلف صالحين كے نھج اور طريقہ پر چلنے والا ہو، اگرچہ ان كى تعداد بہت کم ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ حق كى پہچان آدميوں كے ساتھ نہيں ہوتى، بلكہ آدمى كى پہچان حق سے ہوتى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلاشبہ تم ميں سے جو زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت زيادہ اختلافات كا مشاہدہ كرے گا، لہذا تم ميرى اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ كى پيروى اور اتباع كرنا، اسے مضبوطى سے تھامے ركھنا، اور نئے نئے كاموں سے اجتناب كرنا، كيونكہ ہر بدعت گمراہى ہے" ديكھيں: مسند احمد ( 4 / 126 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2676 ).
اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ بتا ديا ہے كہ اختلاف كے وقت ہم كس كى اقتدا كريں، اور اسى طرح يہ بھى بيان كيا كہ جو قول اور فعل بھى سنت كے مخالف ہو وہ بدعت ہے، اور ہر قسم كى بدعت گمراہى ہے. [مجلة البيان]) (قوسین کے مابین کاترجمہ اسلام سوال وجواب ویب سائٹ پرموجودتھا اسلئے اسکا مراجعہ کرکے اسی پراکتفاکیا گیا )  
 اللہ تعالى تمام لوگوں کواس چیز کی توفیق دے جس سے وہ راضی اورخوش ہو.اورمیں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ ہمیں اورہمارے والدین اورتمام مسلمانوں کوبخش دے ,اوردرودوسلام نازل ہوہمارے نبی محمد صلى اللہ علیہ وسلم اورانکے آل واصحاب پر.
***